(ایجنسیز)
تیونس میں عرب بہاریہ انقلاب کی تیسری سالگرہ کے موقع پر احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں اورمظاہرین نے اسلامی جماعت النہضہ کی قیادت میں حکومت پر انقلاب سے انحراف کا الزام عاید کیا ہے۔
تیونس کے اصلاحات نواز کارکنان نے ملک کی طاقتور ٹریڈ یونین کنفیڈریشن یو جی ٹی ٹی کے ساتھ مل کر انقلاب کی جائے پیدائش شہر سیدی بوزید میں پُرامن مظاہرے کا اہتمام کیا ہے۔
ایک کارکن یوسف جلیلی کا کہنا ہے کہ ''منگل کو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف یوم الغضب منایا جارہا ہے اور احتجاج کیا جارہا ہے''۔ان کا کہنا ہے حکومت اپنے الفاظ کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی ہے اور اس نے انقلاب کے وعدوں سے انحراف کیا ہے۔
واضح رہے کہ تیونس میں 17 دسمبر 2010ء کو ایک تعلیم یافتہ بے روزگارنوجوان محمد بوعزیزی کی خودسوزی کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ملک میں انقلاب برپا ہوا تھا۔تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں سابق مطلق العنان صدر زین العابدین بن علی کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور وہ ان ہنگاموں کے نتیجے میں 14 جنوری 2011ء کو اقتدار چھوڑ کر سعودی عرب بھاگ گئے تھے۔
سیدی بوزید میں 26 سالہ محمد بوعزیزی کی پولیس تشدد کے خلاف احتجاج کے طور پر خودسوزی کے بعد سے متعدد بے روزگار نوجوان خودکشی کرچکے ہیں حالانکہ انھی نوجوانوں نے عرب بہار کی بنیاد رکھی تھی اور تیونس کے بعد مصر ،لیبیا ،یمن اور
شام میں بھی مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاجی تحریکیں شروع ہوگئی تھیں۔
لیکن ان عرب بہاریہ انقلابات کے نتیجے میں تیونس اور دوسرے عرب ممالک کے عوام کی زندگیوں میں کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔وہ ماضی کی طرح گوناگوں مسائل سے دوچار ہیں اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔تیونس میں برپا شدہ انقلاب کے تین سال کے بعد بھی کل ایک کروڑ آبادی میں سے قریباً بیس لاکھ انتہائی غربت کا شکار ہیں جبکہ بے روزگاری کی شرح پندرہ فی صد ہے اوربے روزگار نوجوانوں کی تعداد سات لاکھ سے متجاوز ہے۔
سیدی بوعزیزی اور دوسرے شہروں میں مظاہرین اپنی احتجاجی ریلیوں کے دوران اس سال کے آغاز میں مشتبہ جہادیوں کے حملوں میں قتل ہونے والے حزب اختلاف کے دو سیاست دانوں کو بھی خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔ان دونوں کے قتل کے بعد تیونس سیاسی بحران کا شکار ہوگیا تھا اور اسلامی جماعت النہضہ کی قیادت میں مخلوط حکومت کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔
ملک میں گذشتہ چند ماہ سے جاری سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے النہضہ کی حکومت اور سیکولر حزب اختلاف کے درمیان آزاد ماہرین پر مشتمل عبوری حکومت کے قیام کے لیے سمجھوتا طے پا گیا تھا اور تیونس کی سیاسی جماعتوں نے گذشتہ ہفتے کے روز ہی وزیرصنعت مہدی جمعہ کو عبوری وزیراعظم مقرر کرنے سے اتفاق کیا ہے۔ان کی قیادت میں عبوری حکومت 2014ء میں نئے عام انتخابات کرائے گی۔